بلقیس اختر کے سات بیٹے تھے۔ چار بیاہے ، تین کنوارے سب ہی ساتھ رہتے تھے۔ گھر بھر پر اس کا راج تھا۔ اس کی مرضی کے بغیر یہاں کوئی مکھی پر مارنے کی جرات نہیں کرتی تھی۔ نگرانی اتنی کڑی کہ ہر ہر چیز اس کی آنکھوں سے سکین ہو کر ہی بہووں کے کمروں میں جاتی تھی۔ کسی بہو کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم رکھے۔ اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ کہیں جانے سے پہلے بھی اجازت لینا اور گھر سے باہر جانے کی وجہ بتانا ضروری تھا۔ سب بہووں اور پوتے پوتیوں کا کپڑا جوتا خریدنے کے لئیے ساتھ جاتی اور اپنی مرضی کا سستا ترین خرید کر دیتی۔ چونچ کھولنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی ورنہ شوہروں کے ہاتھوں درگت بنتی تھی۔
=============
اگر کسی بہو کو کچھ منگوانا ہوتا تو اس کی عرضی اپنے شوہر سے نہیں بلکہ ساس سے کرنا لازم تھا۔ پھر وہ ہی فیصلہ کرتی تھی کہ اس چیز کی بہو کو ضرورت ہے یا نہیں۔ میکے جاتے ہوئے اور واپسی پر تھیلے چیک کروانا ضروری تھا۔ شکی اور متجسس مزاج تو تھی ہی ، بیٹوں کے حوالے سے تحفظات کا بھی شکار تھی۔ ہر وقت یہ فکر کہ کوئی بیٹا ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ بیوی کی محبت میں گرفتار نہ ہو جائے۔ لہذا چھوٹی چھوٹی بات کا بتنگڑ بنا کر شوہروں اور بیویوں کی آپس میں کبھی نہ بننے دیتی۔
=============
ان کا جھگڑا کروا کر رکھتی۔ ادھر بہو کی زبان سے کوئی بات نکلی نہیں اور تماشہ شروع۔ شام کو جیسے ہی بیٹے گھر جاتے ہر بہو کی کوئی نہ کوئی شکایت لگتی۔ اور یوں شوہروں کا انتظار کرتی بیویاں شوہروں کو غصے میں دیکھ کر سہم جاتیں۔ یہاں پیار کی باتیں کیا ہوتیں، بیویوں کو اپنی اپنی جان کے لالے پڑ جاتے۔ ہر روز کسی نہ کسی بہو کی شامت آئی رہتی تھی۔ اگر کسی دن بیٹا گھر جا کر سیدھا کمرے میں چلا جاتا اس دن تو بھونچال ہی آ جاتا۔ پیدائش سے لے کر جوان ہونے تک کے ماں کے سارے احسانات گنوائے جاتے۔ دو چار اقوال و احادیث ماں کے حق میں سنا کر بہووں کی ہر طرح سے حق تلفی کی جاتی۔
=============
ایک دن کسی بات پر بحث ہو گئی تو تنگ آئی بہو نے ہمت کی۔ کندھے سے آرام سے پکڑ کر نرمی سے کہا کہ آپ کمرے سے جائیں۔ اس نے کمرے سے نکلتے ہی شور مچا دیا کہ ایمن نے مجھے دھکا دیا ہے۔ بہو بے چاری حیران پریشان ۔ بیٹے اپنی ماں پر یقین کرتے یا بیویوں پر؟ لہذا ایمن کو خوب بے عزت کیا گیا۔ وہ دو گھنٹے پاؤں پکڑ کر بیٹھی رہی پھر کہیں جا کر معافی ملی۔ بچوں کو سکول سے چھٹیاں ہوئیں تو بڑی دو بہوویں بلقیس اختر کی منت سماجت کر کے پانچ ، پانچ دن کی چھٹی پر میکے چلی گئیں۔
=============
تیسری بہو ارم گھر پر ہی تھی۔ ایک کنال کے گھر کے دوسرے گوشے میں ، بلقیس اختر کا پاؤں پھسلا اور گِر گئی۔ کچھ خاص چوٹ نہیں آئی۔ بہو اپنے کمرے میں تھی۔ شاید کچھ آوازیں بھی دی ہوں گی۔ اسے پتا نہیں چلا۔ جب بیٹا گھر پہنچا تو اسے بتایا کہ میں گر گئی تھی۔ یہ جان بوجھ کر مجھے اٹھانے نہیں آئی۔ میں خود اٹھی۔ ساتھ میں بین کر کے اس کو جذباتی کیا کہ میری اپنی بیٹی ہوتی تو کیا ایسا ہوتا، یہ تو مجھے ماں سمجھتی ہی نہیں۔ گھر میں شدید جھگڑا ہو گیا اور بات طلاق تک پہنچ گئی۔ خاندان کے بڑوں نے مل بیٹھ کر صلح کروائی۔
=============
قصہ مختصر بلقیس اختر کی ریشہ دوانیوں سے تنگ اس کی اصل طاقت اس کے بیٹے، سکون کی تلاش میں آہستہ آہستہ الگ ہوتے گئے۔ شوہر فوت ہو گیا۔ بڑھاپے کا سخت مرحلہ شروع ہوا۔ کوئی بہو بیٹا اس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں تھا۔ بڑا بیٹا عارف جو اب خود بھی ساٹھ پینسٹھ کی عمر کا تھا۔ منت سماجت کرتی ماں کو دیکھ کر اس کا دل پسیج گیا۔
=============
لیکن عارف کے جوان کماؤ بیٹوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہماری ماں راضی نہیں۔ ہم اس فتنہ بڑھیا کے ساتھ ہی تمہیں بھی چھوڑ جائیں گے تو عارف جو پہلے ہی ماں کی تخریب کاریوں سے بدظن تھا وہ بھی خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔بلقیس اختر اپنی بیوقوفی کے سبب سب بہووں بیٹوں کے دل سے اتر چکی تھی۔ کوئی بھی اسے اپنے ساتھ رکھنے کو تیار نہ تھا۔ جن کے ساتھ عمر بھر رہنا ہو یا جن کو اپنے ساتھ رکھنا ہو ،
=============
ان کے دل میں اپنے لئیے تھوڑی سی عزت تھوڑی سی جگہ بنا لینی چاہیے۔ ہر احمق کو یہ ہی لگتا ہے کہ یہ کسی دوسرے کی کہانی ہے۔ ہمارے ساتھ ایسا کبھی نہ ہوگا۔
سات بیٹوں کی بوڑھی ماں بلقیںس اختر گھر گھر جا کر لوگوں کو بتاتی ہے کہ میرے سات بیٹے ہیں۔ میں نے دعائیں کر کے لئیے تھے۔ میں دعا کرتی تھی کہ اللہ مجھے بیٹی نہ دینا، بیٹا دینا۔ میں دن میں کئی کئی بار ان کا منہ دھوتی تھی۔ لیکن آج مجھے کوئی پوچھتا نہیں سب ہی بیٹے بہوویں بُرے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بلقیس اختر اپنا بویا کاٹ رہی ہے۔