صبح کی سفیدی ہر طرف پھیل چکی تھی

صبح کی سفیدی ہر طرف پھیل چکی تھی

Sep 13, 2024 - 16:10
Sep 13, 2024 - 16:18
 0  16
صبح کی سفیدی ہر طرف پھیل چکی تھی
صبح کی سفیدی ہر طرف پھیل چکی تھی
صبح کی سفیدی ہر طرف پھیل چکی تھی…..کمرہ سنہری کرنوں سے روشن تھا…..وہ سفید رنگ کے سادہ سے کاٹن کے سوٹ میں ملبوس تھی……...ڈوپٹے کو سر پر جمائے جائے نماز پر بیٹھی نماز پڑھ رہی تھی…..سلام پھیر کر دعا کےلئے ہاتھ کھڑے کئے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے….پلکوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر ہتھیلی پر گر رہے تھے…..اُس نے دعا مانگے بغیر ہاتھ منہ پر پھیرے تھے….پھر سجدے میں چلی گئ تھی….کھچھ دیر سجدے میں روتی رہی……یہاں تک کہ ہچکی بندھ گئ…….
یا اللہ میرے پاس آج تجھ سے مانگنے کےلئے کھچھ بھی نہیں ہے….بس ایک بات ہے جو تجھ سے کرنی ہے مجھے موت دے دے……..پلیز اللہ جی مجھے اپنے پاس بلا لیں….بس میری دعا قبول کر لے….آمین…."وہ سجدے سے اُٹھی تھی اور جائے نماز لپیٹ کر اپنی جگہ پر رکھی تھی…..
تبھی دروازے پر دستک ہوئی تھی….
"آ جائیں……."
ملازمہ اندر آئی تھی….
بی بی جی بیگم صاحبہ کہہ رہی ہے اگر آپ نے ناشتہ کرنا ہے تو میں بنا دیتی ہوں اور دس بجے قل خوانی ہے…..آپ آ جائیے گا……."
"ناشتے کی ضرورت نہیں ہے' تم جاؤ میں آ جاؤں گی…"
وہ بولی تھی…..
"جی ٹھیک ہے بی بی جی……"ملازمہ تابعداری سے سر ہلاتی باہر چلی گئ…..زارا نے گہرا سانس کھینچ کر بیگ اُٹھا کر بیڈ پر رکھا تھا…..اور الماری کی طرف بڑھی تھی…..الماری کھولی تھی….خالی نظروں سے اُس کے سلیقے سے ہینگ ہوئے کپڑوں کو دیکھتی رہی….کوٹ 'ٹائی ' شرٹس ' اُس نے ہاتھ بڑھا کر اُس کی ایک سفید شرٹ اُتاری تھی…..اُس سے بہت اچھے پرفیوم کی خوشبو اُٹھ رہی تھی……وہ اُس شرٹ کو گلے سے لگاتی آنکھیں موند گئ تھی…..پلکیں بھیگنے لگی تھیں…
"شاہ ویز عمر بھر کے ساتھ کا وعدہ تھا' تم بہت جلدی چلے گئے…..میں تمھارے بغیر کیسے رہوں گی یار تمھاری عادت ہو گئ ہے….تم نے کہا تھا مجھے تم سے نفرت ہو جائے گی…لیکن مجھے تم سے عشق ہو گیا ہے' ایسا عشق جس میں اب آخری سانس تک جلنا ہے….میں خود کشی نہیں کر سکتی کیونکہ یہ کفر ہے لیکن میں دعا کر سکتی ہوں اپنی موت کی….وہ میں ہر نماز میں اپنے لیے کروں گی……تم انتظار کرنا میں بہت جلد تمھارے پاس آؤں گی…..پھر کبھی جدائی نہیں آئے گی…."وہ شرٹ تہہ کرتی اپنے بیگ میں رکھتی بولی تھی…..پھر اپنے کپڑے اُٹھا کر بیگ میں رکھے تھے…..وہ الماری کے نچلے خانے سے اپنے شوز اُٹھا رہی تھی….اُس کی نظر جب سرسری طور پر المارے کے نیچے والے خانے جو ڈرار بنے ہوئے تھے….اُن کی طرف گئ تھی….اُس نے ایک ڈرار کو کھینچا تھا…..وہ کھل گیا تھا…اُس نے چیزیں الٹائی پلٹائی تھیں….اُس کو تصویروں کی ایلبم نظر آئی تھی……اُس نے ایلبم اٹھائی تھی…..
اُس نے ایلبم کھولی تھی….وہ کھچھ پل حیرانی سے دیکھتی رہی…..دریا کے پاس پنک فراک میں وہ پتھر جمع کر رہی تھی….اُس نے صفحہ پلٹایا تھا….وہ ایک پھتر پر بیٹھی چہرے کے نیچے ہتھیلیاں رکھے مسکراتے ہوئے سفید برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ دیکھ رہی تھی…..آگے بھی اُس کی ہی تصویریں تھی……….کہیں سورج کے آگے سنہری کرنوں کی زد میں….تو کہیں پتھروں کو جمع کرنے کی…..
"آپ میری تصویریں لے رہے ہیں…." وہ غصے سے چلا کر بولی تھی…..
زارا میں غروب ہوتے سورج کی تصویر لے رہا ہوں اگر تم سورج اور میرے کیمرے کے درمیان میں آ رہی ہو تو اِس میں میرا کیا قصور……"وہ کیمرہ سنبھالے مسکرا کر کہہ رہا تھا…….
زارا بے ساختہ مسکرائی تھی…پھر صفحہ پلٹایا تھا……
گھوڑے پر اُن دونوں کی تصویر تھی……شاہ ویز نے گھوڑے کی لگامیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیں….جبکہ زارا آگے بیٹھی ڈری ہوئی تھی…..
"بادل….."وہ پھیکی سی مسکرائی تھی….پھر گہرا سانس کھینچ کر ایلبم بند کیا تھا…..اور واپس رکھا تھا….وہ ڈرار بند کرنے لگی تھی….جب اُس کی نظر بھورے رنگ کے کلپ پر گئ تھی…..جس پر تتلی نما شیپ بنی ہوئی تھی…..ٹرپ کے دوران اُس سے کھو گیا تھا…….اُس نے فضا سے'اور اپنے روم کی ہر لڑکی سے پوچھا تھا مگر کسی کو نہیں پتہ تھا…..
اُس نے کلپ اُٹھا کر ہاتھوں میں تھاما تھا……
میرا معمولی سا کلپ شاہ ویز کے پاس کیا کر رہا ہے؟………...."اُس نے کندھے اچکا کر کلپ واپس رکھا تھا…اور ڈرار بند کر کے دوسرا ڈرار کھولا تھا…..وہاں مٹی سے اٹی ہوئی فائلز کا ڈھیر لگا ہوا تھا….زارا نے دوسرا ڈرار بھی بند کیا تھا……اُٹھی تھی….بیگ میں اپنے جوتے ایڈجیسٹ کرتی زپ بند کی تھی…..بیگ اُٹھا کر دیوار کے ساتھ ایک سائڈ پر رکھا تھا…..
ساری رات جاگنے اور رونے کی وجہ سے سر بُری طرح پھٹ رہا تھا…………..وہ بیڈ پر تکیہ رکھتی لیٹی تھی…..اور آنکھیں بند کی تھیں……خشک آنکھیں نم ہوئی تھیں……..زارا یہ رونا تو اب ساری عمر کا رونا ہے………….وہ تمھارے رونے سے واپس نہیں آئے گا' اب کبھی اُسے نہیں دیکھ سکو گی….
وقت کتنا لگتا ہے….
وقت کے گزرنے میں…..
زخم کے نکھرنے میں…..
خواب کے بکھرنے میں….
راستہ بدلنے میں….
دور جا نکلنے میں……
وقت کتنا لگتا ہے….
وقت کے گزرنے میں……
کاش تم مجھے بتا دیتے تمہیں کینسر ہے تو تمہیں اِس طرح لا پروائی نہ کرنے دیتی کھچھ بھی کر کے تمہیں زندگی کی طرف واپس لے آتی…..تم نے کبھی مجھے اپنا نہیں سمجھا………کبھی مجھ سے کوئی بات شئیر نہیں کی….کبھی تم نے مجھ سے محبت نہیں کی….ہمیشہ زمہ داری کی طرح یہ رشتہ نبھایا…..تمھاری نظر میں میں کبھی اہم تھی ہی نہیں…..یہ شکوہ مجھے تم سے ہمیشہ رہے گا……."وہ رو رہی تھی…..اُس نے آنسو بہنے دئیے شاید اِس طرح سے اُس کے دل کا درد کھچھ کم ہو جائے مگر درد بڑھ رہا تھا………...روح چھلنی ہو رہی تھی……..نہ صبر آ رہا تھا نہ ہی بے چینی کم ہو رہی تھی………وہ بس اپنے نصیب کو روئے گئ…..
…………
وہ دس بجے نیچے آئی تھی…..نیچے لاؤنج میں قالین پر کھچھ عورتیں بیٹھی قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں اور کھچھ گھٹلیاں پڑھ رہی تھیں…..حرا جو قرآن پاک سامنے رکھے تلاوت کر رہی تھی…..قرآن پاک کو بند کرتی اُٹھی تھی…..اور زارا کی طرف آئی تھی….حرا نے زارا کو دیکھا تھا….جس کی آنکھوں کے کٹورے پانی سے بھرے ہوئے تھے….وہ تڑپ کر حرا کے گلے لگی تھی…..
"حرا وہ مجھے چھوڑ کر……."
"اچھا ٹھیک ہے بس چپ کرو…..….پہلے ہی رو رو کر آنکھیں سوجھی ہوئی ہیں…میں تمہیں لینے آئی ہوں یہ قل خوانی تھمے گی تو گھر چلیں گے ٹھیک ہے….تم نے ناشتہ کیا؟…….."وہ اُس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں تھام کر بولی تھی……زارا نے سر نفی میں ہلایا تھا……
"زارا تم نے کل دوپہر سے کھچھ نہیں کھایا؟…."وہ حیران ہوئی تھی……
"حرا مجھے کھچھ نہیں کھانا…..تم مجھے کہیں سے شاہ ویز ڈھونڈ دو پلیز….وہ کھو گیا ہے…."وہ اُس کے ہاتھ تھامتی روہانسی ہو کر بولی تھی……
"زارا تم چلو میرے ساتھ بیٹھو….قرآن پاک پڑھو گی تو سکون ملے گا…."وہ اُس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ لے آئی تھی….عورتیں زارا کو دیکھ رہی تھیں….
"ستائش جی آپ کی بہو کے قدم تو اچھے ثابت نہیں ہوئے آپ کے جوان بیٹے کو کھا گئ……"ایک عورت نے ستائش بیگم کو مخاطب کر کے کہا تھا…..
ستائش بیگم نے طنزیہ کاٹ دار نگاہوں سے زارا کو دیکھا تھا…….
"بس جی کیا کریں کھچھ قدم منحوس ہوتے ہیں'گھر میں خوشیاں لانے کی بجائے بدبختی لے آتے ہیں…."
"ستائش جی یہ تو آپ نے سولہ آنے درست بات کی ہے….اب میری بہو جب سے ہمارے گھر آئی ہے میرے بیٹے کی ترقی ہی ہو رہی ہے….اور اب تو ماشااللہ سے مجھے دادی بننے کی خوش خبری سنائی ہے….."وہ فخر سے بولی تھیں………
زارا کے گلے میں کانٹے چبھنے لگے تھے….آنسو کا پھندا تھا جو گلے میں اٹک گیا تھا….سب عورتوں کی نظروں میں تاسف تھا…..اُس نے حرا کو دیکھا تھا جو اُسے نظر انداز کرنے کے اشارے کر رہی تھی…..
"چلو بیٹھو…."حرا نے اُسے بٹھایا تھا….قرآن پاک اُس کے سامنے کھول کر رکھا تھا….وہ دُھندلی نظروں سے قرآن کے لفظ دیکھ رہی تھی….جو اُسے نظر نہیں آ رہے تھے…..اُس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو رگڑ کر صاف کئے تھے……اور آہستہ آہستہ قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگی تھی………
………….
تھوڑی دیر بعد قل خوانی ختم ہو گئ تھی…..لاؤنج میں اب صرف ستائش بیگم ہی بیٹھی تھیں….اور اُن دونوں بہنوں کو دیکھ رہی تھی……
"حرا تم بیٹھو میں بیگ لے کر آتی ہوں……"وہ بولی تھی…..حرا نے سر اثبات میں ہلایا تھا…..اور صوفے پر بیٹھی تھی…..
"تمھارا نام حرا ہے؟…………"وہ اخبار لپیٹتی سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھ کر بولی تھی…..
"جی میں حرا ہوں….."
دیکھو اگر تمھاری بہن عدت یہاں گزارنا چاہتی ہے تو مجھے کوئی ایشو نہیں ہے….وہ یہاں سکون سے رہ سکتی ہے….."
"نہیں آنٹی اِس کی کوئی ضرورت نہیں ہے….وہ یہاں رہے گی تو رو رو کر اپنی طبعیت خراب کر لے گی….اور میں اُسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی……. مشکل وقت میں اپنوں کی ضرورت ہوتی ہے……"وہ مضبوط لہجے میں بولی تھی…..ستائش بیگم نے آئبرو اچکائے تھے…….
زارا بیگ اُٹھا کر سیڑھیوں سے نیچے آئی تھی….اور حرا کو دیکھا تھا جو کھڑی ہوئی تھی…..
"چلیں……"وہ بولی تھی….
"زارا تم دو منٹ بیٹھو تم سے بات کرنی ہے…."ستائش بیگم نے کہا تھا….
"جی….."زارا صوفے پر ٹکی تھی……
"دیکھو اب تم بیوہ ہو تو تمہیں یہ جیولری نہیں پہننی چاہیے….."وہ اُس کے ہاتھ میں انگوٹھی اور بریسلٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی تھی….
زارا نے حرا کو دیکھا تھا…..
"آنٹی جی ایسی بات ہے تو آپ نے کیوں پہنی ہوئی ہے؟…."حرا نے کہا تھا……
"حرا پلیز تم چپ کرو وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں…."زارا نے انگوٹھی اور بریسلٹ اُتار کر میز پر رکھا تھا….اُس نے گردن میں پہنی ہوئی چین بھی اُتاری تھی….اور وہ بھی میز پر رکھی تھی…..
"آنٹی اِس کے علاوہ آپ کے بیٹے نے مجھے اور کوئی گفٹ نہیں دیا اگر آپ کو اعتبار نہیں ہے تو میرا بیگ حاضر ہے……"وہ بہت ضبط سے اپنے آنسو پر پہرا لگائے بیٹھی تھی……
"نہیں میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے کہ تمھارا بیگ چیک کرتی پھروں تم جا سکتی ہو اور واپس مڑ کر اِس گھر کی طرف کبھی نہیں دیکھنا….."
"آنٹی یہ خالی محل آپ کو مبارک ہو میرے لیے اِس گھر میں اب کھچھ نہیں رہا……."وہ گہرا سانس کھینچ کر بولی تھی……
"چلو حرا….."وہ بیگ اُٹھا کر باہر کی جانب بڑھ گئ تھیں…..
"رکو لڑکی….."وہ ستائش بیگم کی آواز پر تھمی تھی مڑ کر پیچھے دیکھا تھا…..
"میں جانتی ہوں تمہیں عدت کے بعد کام کی ضرورت ہو گی تو آ جانا یہاں….تمہیں ملازمہ کی جاب آفر کر رہی ہوں….سیلری بھی اچھی دوں گی….."وہ طنز سے مسکراتے ہوئے لہجے میں بولی تھیں……
زارا نے حواب نہیں دیا تھا…..اور بیگ گھسیٹتی باہر بڑھی تھی…..
تبھی لاؤنج کے دروازے سے ایک موٹا سا آدمی اندر آیا تھا….سیاہ بیگ اُٹھائے اور ہاتھوں میں موٹی موٹی فائلز تھامے وہ زارا کو دیکھ کر تھما تھا…..
"مسز شاہ ویز….مجھے آپ کے پانچ منٹ چاہیں….دیکھیے میں جانتا ہوں یہ وقت مناسب نہیں ہے لیکن آپ کا ہونا بہت ضروری ہے….."
زارا نے حرا کو دیکھا تھا حرا نے سر اثبات میں ہلایا تھا…..
وہ آدمی اندر کی طرف بڑھ گیا تھا…..
"آئیے آئیے کمال صاحب میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی….."ستائش بیگم خوش دلی سے مسکرائی تھیں……پیچھے سے زارا اور حرا کو دیکھ کر اُن کی مسکراہٹ سمٹی تھی…..
"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟……."چبھتے لہجے میں پوچھا تھا…….
زارا نے جواب نہیں دیا تھا اور آ کر صوفے پر بیٹھی تھی…..
"ستائش آرا بیگم جی اِن کا ہونا بہت ضروری ہے….شاہ ویز صاحب نے وصیت لکھوائی تھی میرے پاس….اور اپنی تمام جائیداد کا کھچھ حصہ آپ کے نام کیا تھا اور کھچھ حصہ انھوں نے زارا صاحبہ کے نام کیا تھا…….."وہ بیگ سے مختلف فائلز نکال رہے تھے……..
"اِس لڑکی کا شاہ ویز کی پراپرٹی سے کیا لینا دینا…….."وہ چلائی تھیں……
"ستائش آرا جی مجھے جو کرنے کےلئے کہا گیا میں بس اپنا فرض پورا کر رہا ہوں……اُنھوں نے ناک پر موٹا سا چشمہ چڑھایا تھا اور ایک کاغذ اپنے سامنے پھیلایا تھا………
ستائش جی شاہ ویز صاحب نے آپ کے نام گاؤں والی حویلی' اور تین پلاٹ جو ایچ کالونی میں ہیں وہ آپ کے نام کئے ہیں….یہ میں نے سارے ڈاکومینٹس علیحدہ کر لئے ہیں…..یہ آپ دیکھ لیں…….."اُس نے فائلز ستائش بیگم کو تھمائی تھیں……..ستائش بیگم نے ماتھے پر بل ڈال کر فائلز تھامی تھی…..اور کٹیلی نظروں سے زارا کو دیکھا تھا………
زارا صاحبہ شاہ ویز صاحب نے یہ گھر' بزنس' اور اپنے تمام بینک اکاؤنٹس 'ڈیفینس والے اپارٹمنٹ اور گاؤں والی زمینیں آپ کے نام کر دئیے تھے….یہ تمام فائلز اُنھوں نے آپ کو دینے کےلئے کہا تھا …..……."زارا نے ستائش بیگم کو دیکھا تھا جو آنکھیں پھاڑے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی……..…زارا نے کپکپاتے ہاتھوں سے فائلز لیں تھیں…….
"کمال صاحب ایسا کیسے ہو سکتا ہے آپ کو یقیناً کوئی بہت بڑی غلطی فہمی ہوئی ہے….آپ دوبارہ چیک کریں….شاہ ویز کی ماں میں ہوں…..اِس سب کی حقدار میں اور فاطمہ ہیں……."وہ ضبط کی آخری حد پر تھیں…..اُن کا بس نہیں چل رہا تھا زارا کو زندہ گاڑ دیں……..
"ستائش جی میں ایک وکیل ہوں اور سالوں سے یہ کام کر رہا ہوں…..شاہ ویز صاحب کو ڈر تھا کہ وہ بہت جلد یہ دنیا چھوڑ کر چلے جائیں گے……اِس لیے اُنھوں نے مجھے بلایا اور قانونی کاروائی کرتے ہوئے اپنی ساری جائیداد اپنی بیوی اور ماں کے نام کروائی……"
زارا فائلز سینے سے لگائے اُٹھی تھی…..آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئی تھیں………اور چلتی ہوئی ستائش بیگم کے سامنے آئی تھی ستائش بیگم نے آئبرو اچکا کر اُسے دیکھا تھا………....زارا نے بنا کھچھ کہے میز سے اپنی جیولری اُٹھائی تھی……
"آنٹی جی میرے گھر میں آپ سکون سے رہیں….بہت جلد واپس آؤں گی….پھر ملاقات ہوتی ہے….."وہ دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی…..اُس کی مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا….ستائش بیگم نے میز پر رکھا ہوا گلدان اُٹھا کر فرش پر پھینکنا چاہا تھا….زارا نے گلدان اُن کے ہاتھ سے لے کر واپس میز پر رکھا تھا……….
"آنٹی جی غصہ نہ کریں اب آپ کی صحت کےلئے اچھا نہیں ہے….اور میرے گھر کی ہر چیز بہت قیمتی ہے اِس لیے نہیں کہ یہ بہت ایکسیپیسو ہے بلکہ اِس لیے کیونکہ ہر چیز میرے شوہر کی خون پسینے کی کمائی سے لی ہوئی ہے……اور شاہ ویز ہر چیز کی ذمہ داری مجھے سونپ گئے ہیں…….وہ نرمی سے مسکراتی کھچھ جتانے والے انداز میں بولی تھی…….
ستائش بیگم اُٹھی تھیں اور چیلجنگ انداز سے زارا کو دیکھا تھا…..سر اثبات میں ہلاتی فائلز اندر کی جانب بڑھ گئ تھیں……
"چلو حرا……"وہ بولی تھی….
"مسز شاہ ویز……"کمال صاحب کھڑے ہوئے تھے……
زارا نے سوالیہ نظروں سے اُنھیں دیکھا تھا……..
زارا صاحبہ آپ کی ایک امانت ہے میرے پاس….شاہ ویز صاحب نے ایک خط دیا تھا آپ کو دینے کےلئے…..یہ آپ وصول کر لیں…..تا کہ میں اپنی ذمہ داری سے آزاد ہو سکوں……."اُنھوں نے ایک زرد لفافہ زارا کی طرف بڑھایا تھا…..زارا نے اُلجھن بھری نظروں سے وہ لفافہ دیکھا تھا…….
"کیسا خط؟……."
"پتہ نہیں شاہ ویز صاحب نے آپ کو دینے کےلئے کہا تھا….."
زارا نے لفافہ پکڑا تھا…..اور اُس لفافے کو الٹایا پلٹایا تھا…..جس پر کھچھ نہیں لکھا ہوا تھا…..
"اچھا چلیں مجھے اجازت دیجیے…..خدا حافظ….."وہ اپنا بیگ اُٹھاتا باہر کی جانب بڑھ گیا تھا….زارا اور حرا بھی باہر کی جانب بڑھ گئ تھیں…..
………¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤………
یہ شام کا وقت تھا….مغرب کی ازانیں بلند ہو رہی تھیں…زارا واش روم میں وضو کر رہی تھی….اُس نے وضو کر کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تھا….پانی کی بوندیں چہرے پر پھسل رہی تھی….آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے تھے…..آنکھوں کی پتلیاں سُرخ تھیں…….
"زارا تولیہ مل سکتا ہے؟…."آئینے کے پار دھندلی سی یاد نے دستک دی تھی…..
"تولیے کی کیا ضرورت ہے ایسے ہی چہرہ خشک ہو جائے گا……"غصے سے دانت پیستی آگے بڑھ گئ تھی…..جب اُس کا ڈوپٹہ پیچھے کھینچا تھا…..اُس نے مڑ کر دیکھا تھا…..وہ اُس کے ڈوپٹے سے منہ خشک کر رہا تھا……ٹھیک کہہ رہی ہو جب تمھارا ڈوپٹہ ہے تو تولیے کی کسے ضرورت ہے….."وہ اُسے گہری نگاہوں سے دیکھتا شرارت بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا…..
وہ حال میں پلٹی تھی….ایک نظر پھر آئینے میں دیکھا تھا….جہاں اب کوئی چہرہ دکھائی نہیں دے رہا تھا……..وہ گہرا سانس کھینچتی باہر آئی تھی………..
اُس نے جائے نماز بچھائی تھی…..ڈوپٹہ اپنے چہرے کے ارد گرد لپیٹیتی نماز پڑھنے کےلئے کھڑی ہوئی تھی……ابھی وہ نماز پڑھ رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا تھا…..حرا دو چائے کے کپ لے کر اندر آئی تھی…..اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اُس کا انتظار کرنے لگی…………..کوئی پانچ منٹ بعد اُس نے نماز ختم کی تھی….دُعا کےلئے ہاتھ اُٹھائے تھے…مگر دعا مانگے بغیر ہاتھ منہ پر پھیرے تھے……حرا نے حیرت سے اُسے دیکھا تھا……..جو جائے نماز اپنی جگہ پر رکھتی اُس کے پاس آ بیٹھی تھی…..چائے کا کپ اُٹھایا تھا………..
"دُعا کیوں نہیں مانگی تم نے؟….."حرا نے تھوڑے سے غصے سے کہا تھا……
"دُعا مانگنے سے وہ واپس آ سکتا ہے؟……"وہ چائے کا سپ بھرتے ہوئے بولی تھی…..
"زارا اللہ پاک منتظر تھا کہ یہ بندی مجھ سے کھچھ مانگے اور میں عطا کروں……"
حرا میں نے مانگی ہے ناں سجدے میں اپنے مرنے کی دعا…..اُس سے ملنے کی ایک ہی صورت مجھے نظر آ رہی ہے……."
"زارا تم مایوسی کی باتیں کیوں کر رہی ہو…..ہو سکتا ہےاللہ پاک نے تمہارے لیے کھچھ اچھا سوچا ہو؟……...."
"حرا اب مجھے کسی بہتر کی ضرورت نہیں ہے….بس کسی رات سوؤں اور صبح نہ جاگوں….تم دعا کرو میرے لیے اِس زندگی کی قید سے آزاد ہو جاؤں…."وہ اُس کے ہاتھ تھام کر بولی تھی…..
"تم پاگل ہو گئ ہو…اب مجھے پاگل کر رہی ہو؟……یہ بتاؤ تم نے خط پڑھا شاہ ویز بھائی نے کیا لکھا ہے؟………"
"نہیں ہمت نہیں ہوئی….میں نہیں پڑھوں گی…."وہ چھوٹے چھوٹے چائے کے سپ بھر رہی تھی….
"زارا خط کہاں ہے مجھے دو میں پڑھتی ہوں…………"
"نہیں بلکل ضرورت نہیں ہے…..وہ خط میں کبھی نہیں پڑھوں گی….وہ معافی مانگ رہا ہو گا….اور معاف میں اُسے مر کر بھی نہیں کروں گی……مجھے لگتا ہے اُس خط کو پڑھوں گی تو برداشت نہیں کر سکوں گی…اُس کے لفظ میری روح چھلنی کر دیں گے…..حرا ایسا لگتا ہے جیسے یہ ایک خواب ہے ایسا لگتا ہے جیسے وہ زندہ ہے……کبھی اچانک سے سامنے آئے گا اور کہے گا زارا میں تو مذاق کر رہا تھا…….حرا میرا دل کہتا ہے وہ میرے آس پاس ہے….زندہ ہے….مجھے دیکھ رہا ہے…….
"ہاں حرا وہ زندہ ہے…..دیکھو میرا دل دھڑک رہا ہے تو وہ کیسے مر سکتا ہے….اگر وہ مر گیا ہوتا تو میں زندہ کیسے ہوں……اُس کی دھڑکنوں سے میری دھڑکنیں جڑی ہیں……"وہ پاگلوں کی طرح زور و شور سر اثبات میں ہلاتی یقین سے کہہ رہی تھی……..حرا نے سر تھاما تھا……….
"زارا وہ تمھارے دل میں زندہ ہے ہاں وہ تمھارے آس پاس ہی ہے……. اچھا چھوڑو یہ باتیں یہ بتاؤ تم بزنس خود سنبھالو گی؟……کیا سوچا ہے تم نے؟….تمھاری ساس تو بہت لالچی نکلی ایک دن نہیں ہوا بیٹے کی موت کو اُنھوں نے اُس کی جائیداد کے بٹوارے کرنے شروع کر دئیے……."
"حرا صبح جو کھچھ میں نے کیا وہ بہت غلط تھا….کھچھ بھی میرا نہیں ہے….میں ہر چیز ستائش آنٹی کو واپس کر دوں گی….میرا کسی چیز پر کوئی حق نہیں ہے یہ بات شاہ ویز کو سمجھنی چاہیے تھی……..وہ جب مجھ پر اعتبار نہیں کرتا تھا' مجھے کھچھ بتانا ضروری نہیں سمجھتا تھا تو یہ احسان کس کھاتے میں آتا ہے….میں اب اپنی عدت مکمل ہونے تک کہیں نہیں جا سکتی لیکن تم چلی جانا اور فائلز دے آنا…..اور جیولری بھی دے دینا……"
"ہرگز نہیں…..شاہ ویز بھائی نے کھچھ سوچ کر ہی ہر چیز تمھارے حوالے کی ہے…..میں نہیں جاؤں گی اور نہ ہی تمہیں یہ بیوقوفی کرنے دوں گی….تم ریسٹ کرو میں کھانا لے کر آتی ہوں……"
"وجی نے کھایا؟……"
"نہیں وہ نہیں کھا رہا بہت پریشان ہے؟….."
"حرا کھانا میز پر لگاؤ ہم سب ساتھ کھائیں گے….میں اُس سے کہتی ہوں…."وہ بولی تھی…حرا نے سر اثبات میں ہلایا تھا اور باہر کی جانب بڑھ گئ تھی….زارا گہرا سانس کھینچتی اُٹھی تھی….ڈوپٹہ سر پر جماتی باہر بڑھی تھی………..
وہ ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھا تھا…..جب زارا آئی تھی……
"وجی چلو آؤ کھانا کھاؤ……."
"زارا آپی آپ لوگ کھائیں….مجھے بھوک نہیں ہے…."
"کیوں؟……."
"بس نہیں کھانا……"وہ نارض لگ رہا تھا…..
"وجی تمھارے بھوکے رہنے سے اماں واپس نہیں آئیں گی…..چلو آؤ شاباش….پریشان نہیں ہو' یہی زندگی ہے….جب تک ہم زندہ ییں…کھائیں پئیں گے بھی اور اپنے حصے کا بوجھ بھی اُٹھائیں گے…..تم اکیلے نہیں ہو جو غم میں ہو مجھے دیکھو میرے پاس جینے کی کوئی وجہ نہیں ہے پھر بھی چل پھر رہی ہوں سانس لے رہی ہوں کھانا کھا رہی ہوں…..حرا کو دیکھو وہ بھی غم میں ہے لیکن اپنا غم بھول کر ہماری فکر میں گھل رہی ہے…یہاں ہر کوئی پریشان ہے یار….چلو اُٹھو اور میں ناں نہیں سُن رہی……."
"آپی ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا…..اماں نے مجھے پڑھایا لکھایا اور اب میری ہاؤس جاب شروع ہونے والی ہے لیکن وہ نہیں ہیں….جب اُن کے خواب پورے ہونے کا وقت آیا وہ چلی گئیں……….وہ مجھے بہت یاد آ رہی ہیں….."وہ سر جھکا کر اُداس لہجے میں بولا تھا…………
"زارا….وجدان….یار تم لوگ جلدی آ جاؤ کھانا ٹھنڈا ہو جائے گا…….پھر مجھ سے دوبارہ گرم نہیں ہوتا…."حرا کچن سے باہر جھانکتے ہوئے بولی تھی…..
" ہاں آ رہے ہیں……"وہ اونچی آواز میں بولی تھی…
"وجدان تم اگر چاہتے ہو اماں خوش ہوں تو تمہیں ہر حال میں اُنکا خواب پورا کرنا ہو گا ہمت کرنی ہے….میں یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں جب تم ڈاکٹر بن جاؤ گے تو اماں کی روح کو سکون مل جائے گا وہ بہت خوش ہوں گی….."
"سچ میں زارا آپی……"وہ حیرت سے مسکرا کر بولا تھا…..
"ہاں بلکل….چلو اب ہاتھ منہ دھو کر آؤ کھانا کھاتے ہیں……."
وہ اُٹھا تھا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا….زارا گہرا سانس کھینچتی حرا کی طرف آئی تھی….
………¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤………
گہری خاموش رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی…..کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی تھی….حرا سو گئ تھی جبکہ وہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی….اُس نے سائڈ پر رکھی چھوٹی سی میز پر نظریں دوڑائی تھیں…….جہاں کتاب کے نیچے زرد لفافہ نظر آ رہا تھا……….…وہ بے چین نظروں سے اُس خط کو دیکھ رہی تھی…..وہ اُٹھی تھی….بیڈ سے نیچے پاؤں لٹکا کر آگے کو جھکی تھی…..میز سے خط اُٹھایا تھا…..بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی تھی….کھچھ سوچتے ہوئے اوپر سے پھاڑا تھا….اندر سے ایک سفید کاغذ نظر آ رہا تھا….ایک گہرا سانس کھینچا تھا….ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑ کر صاف کی تھیں…….کپکپاتے ہاتھوں سے اندر سفید کاغذ کو کھینچا تھا……جس پر سیاہ پوائینٹر سے اُس کے لکھے گئے الفاظ واضح ہو رہے تھے….زارا کا دل کسی نے مٹھی میں جکڑا تھا…..آنسو سے لبریز آنکھیں ایک بار پھر صاف کی تھیں…..تا کہ دھندلے لفظ واضح ہو سکیں………اُس نے سب سے پہلا لفظ پڑھا تھا….جو اوپر موٹے لفظوں سے لکھا گیا تھا…..
"روح من………"وہ اُس لفظ پر ہاتھ پھیرتی شدت سے رو پڑی تھی…..کھچھ دیر رونے کے بعد وہ آگے بڑھی تھی…..
"کیسی ہو تم؟…..میں جانتا ہوں تم اِس وقت شاید اذیت میں ہو گی….یا پھر میرے جانے سے خوش ہو گی…..مجھے پتہ ہے میرے جانے کے بعد امی تم سے کوئی اچھا سلوک نہیں کریں گی…اور شاید گھر سے بھی نکال دیں اِس کا بہتر حل میں نے یہ سوچا وہ گھر تمہارے نام کر دیا جائے….پھر سوچا کہ گھر ہی کیوں ہر چیز پر تمھارا حق ہے…..میں یہ سوچ کر ہر چیز تمہارے حوالے کر رہا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے میری برسوں سے کی گئ محنت ایسے رائگاں نہیں جانے دو گی……"
زارا یہ کبھی مت سمجھنا کہ میں کوئی احسان کر رہا ہوں….یار اِس دنیا میں واحد تم ہی تھیں جسے میری پرواہ تھی 'میری فکر تھی……..تم ہمیشہ مجھ سے سوال کرتی رہی کہ میں تمہیں کیوں چھوڑ کر چلا گیا….آج تمہیں اِس کا جواب دے ہی دیتا ہوں…..یونیورسٹی کے لاسٹ سمیسٹر میں مجھے پتہ چلا مجھے کینسر ہے…….اُن دِنوں میں بہت پریشان تھا…..بابا نے مجھے علاج کےلئے لنڈن بھیج دیا تھا…..میں نے تم سے رابطہ اِس لئے ختم کر دیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تمھارے ساتھ کوئی نا انصافی ہو……..زارا میں نے کبھی تم سے اُس تھپڑ کا بدلہ نہیں لیا….مجھے لگا تم سے رابطہ ختم کر دوں گا تو محبت بھی ختم ہو جائے گی….مگر میں غلط تھا….تم وقت کے ساتھ روح میں اترتی گئ……..تمھارے خیال کو ایک لمحے کےلئے بھی خود سے جدا نہ کر سکا………
پھر برسوں بعد تمہیں انٹرویو روم میں دیکھا…..میں نہیں چاہتا تھا کہ تم میرے پاس کام کرو…..وہ کہتے ہیں ناں تقدیر کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں….تم میرے نصیب میں لکھی ہوئی تھی تو میرے پاس واپس آ گئ……خیر اِس دوران تم کئ بار مجھ سے بدگمان ہوئی….میں نے بھی تمھارے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا…..خیر یہ باتیں نہیں کرتے…….میں نے بہت بار کوشش کی تمہیں سچائی بتا دوں لیکن تم اتنی معصومیت سے مجھے دیکھتی میری ساری ہمت جواب دے جاتی……
اب بات کھچھ یوں ہے میں تو تمھاری زندگی سے ہمیشہ کےلئے چلا گیا ہوں….تو تم شادی کر لینا….زندگی بہت لمبی ہے اور اکیلے نہیں گزرتی….پتہ نہیں تم اِس وقت میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہو….یقیناً میں تمھارے سامنے ہوتا تو مجھے اپنے سر کی فکر ہوتی…..زارا مجھے لگتا ہے تم میرے لفظوں سے بور ہو گئ ہو ہے ناں……زارا مجھے ہر چیز کےلئے معاف کر دینا…آئی ایم سوری یار…..بہت جلد ملیں گے….اِس جہان میں نہ سہی اگلی دنیا میں….تم اپنے شکوے سنبھال کر رکھو…فرصت میں سنوں گا…….خیر اب مجھے اجازت دو……………اپنا خیال رکھنا…..اور مجھے بھولنا مت………..فقط تمھارا……….(شاہ ویز سکندر)......
وہ کتنی ہی دیر خط ہاتھ میں پکڑے بیٹھی رہی…..آنسو خط پر گر کر لفظ بھگو رہے تھے….وہ خط پر جھک کر بُری طرح رو رہی تھی….یہاں تک ہچکی بندھ گئ تھی………
بہت بُرے ہو تم….بہت بُرے….میں کبھی معاف نہیں کروں گی…..شاہ ویز خدا کےلئے واپس آ جاؤ….تمھارے لفظ نہیں تھے نشتر تھے….تم نے کبھی مجھے نہیں بتایا کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتے تھے……میں پاگلوں کی طرح تم پر الزام لگاتی رہی تم اپنی ذات پر ہر چیز برداشت کرتے گئے……یا اللہ جی مجھے معاف کر دیں پلیز……"وہ روہانسی ہو کر بولی تھی…..پھر خط لپٹتی بیڈ پر لیٹی تھی….اور آنکھیں موند گئ تھی…..
……..¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤………
یہ صبح دس بجے کا وقت تھا…ستائش بیگم لاؤنج میں پریشان سی بیٹھی تھیں…..جبکہ فاطمہ چکر کاٹ رہی تھی…..
"ماما ایسے کیسے بھائی ہر چیز زارا کو دے سکتے ہیں……....آپ کے نام وہ گاؤں والی پرانی کھنڈر حویلی کی……یہ زارا تو بہت چالاک نکلی….ماما کھچھ بھی کریں ہمیں اِس سے لڑکی سے ہر چیز واپس لینی ہے…..میرا صبر جواب دے رہا ہے…..ویسے تو شاہ ویز بھائی ہم سے بہت پیار جتاتے تھے….یہ پیار کرتے تھے…….."وہ غصے سے چیخ رہی تھی….
"فاطمہ اُس لڑکی نے جادو کیا تھا….ورنہ شاہ ویز ہر چیز اُٹھا کر اُس دو ٹکے کی لڑکی کو نہیں دے دیتا….میں کوئی بھی چیز اِس لڑکی کو ہڑپنے نہیں دوں گی…..اِس کے حلق سے ہر چیز نکلواؤں گی…..اِس گھر پر'بزنس پر' ہر چیز پر ہمارا حق ہے….فاطمہ میرا بس نہیں چل رہا اُس لڑکی کو گولیوں سے بھون دوں….ساری رات مجھے نیند نہیں آئی…..میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے……کیسے واپس لیں گے ہر چیز….."وہ غصے سے تمتاتے چہرے کے ساتھ چیخ رہی تھیں…….
"اسلام وعلیکم……."تبھی لاؤنج میں غازیان داخل ہوا تھا…….
"وعلیکم اسلام……آؤ آؤ غازیان ہم تمھارا ہی انتظار کر رہے تھے…."
خیریت مام آپ نے اتنی ایمرجنسی میں بلایا….میں اپنے اتنے امپورٹینٹ کام چھوڑ کر آیا ہوں….."وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے صوفے پر بیٹھا تھا……
"شاہ ویز نے ساری پراپرٹی اُس لڑکی کے نام کر دی ہے…….میرے نام صرف وہ گاؤں والی حویلی کی ہے….."
"ہمم تو؟………"وہ آئبرو اچکاتا حیرت سے بولا تھا….
"غازیان یہ نارمل بات نہیں ہے…..ہمارے ہاتھ سے ہر چیز نکل چکی ہے وہ دو ٹکے کی لڑکی یہ سب ڈیزرو نہیں کرتی…..ہمیں اُس سے ہر چیز واپس چاہیے….ورنہ وہ لڑکی ہمیں اِس گھر سے باہر نکال دے گی…..ہم کہیں کے نہیں رہیں گے……..ساری زندگی سکندر صاحب کو شاہ ویز کے خلاف کرتی رہی……اُسے مار پڑواتی رہی……میری پلیننگ دھری کی دھری رہ گئ…..سکندر صاحب کے مرنے کے بعد پتہ چلا وہ ہر چیز بیٹے کے نام کر کے چلے گئے…….پھر ساری زندگی بیٹے کی چاپلوسی کرتی رہی…..اُس کے مرنے کے بعد پتہ چلا وہ اپنی ساری جائیداد بیوی کو دے کر چلا گیا……."
"مام اب آپ کیا چاہتی ہیں…."وہ ماتھے پر بل ڈالے غور سے اُنھیں دیکھتا بولا تھا….جو پراسرا انداز میں مسکرا رہی تھیں………
"بتاتی ہوں تمھارے لئے کافی منگواتی ہوں……."اُنھوں نے فاطمہ کو اشارہ کیا تھا……..
"میں بھجواتی ہوں کافی……"وہ سر ہلاتی وہاں سے چلی گئ تھی……
"غازیان میری بات غور سے سنو….ہمارے پاس اِس کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں ہے….تمہیں اُس لڑکی سے شادی کرنی ہو گی…..کھچھ بھی کرو….چیٹ کرو' اُسے اپنی طرف کرو'شادی کرو ہر چیز اپنے نام کرواؤ اور پھر چھوڑ دینا……..دیکھو میں نے اِس جائیداد کو جاصل کرنے کےلئے ہر حد پار کی ہے اب ایسے ہر چیز کو ہاتھ سے نہیں جانے دوں………"
"مام اِس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے…..میرے خیال میں اُس سے بات کریں…..دیکھنے میں بہت معصوم سی اور بے ضرر سی لڑکی لگتی ہے….میرے خیال میں اُسے کسی قسم کی کوئی لالچ نہیں ہونی چاہیے…….."
"بہت غلط سوچ رہے ہو غازیان…..انتہائی چالاک لڑکی ہے…..مجھے کہہ کر گئ ہے میں اُس کے گھر میں سکون سے رہوں….کہہ کر گئ ہے بہت جلد واپس آؤں گی….بہت جلد ملاقات ہوتی ہے……وہ کسی چیز سے دستبردار نہیں ہو گی….."
"انٹرسٹنگ…….یعنی جو لڑکی تابوت سے سر پٹخ پٹخ کر زخمی کر رہی تھی….اتنا ڈرامہ کر رہی تھی….اندر سے وہ بھی دوسری لڑکیوں کی طرح دولت کی بھوکی ہے……"وہ آئبرو اچکاتا آنکھیں چھوٹی کر کے مسکرایا تھا……..
"غازیان تم یہ بتاؤ ہمارا ساتھ دو گے……"
"ڈونٹ وری مام یہ ٹاسک میرے بائیں ہاتھ کا ہے جانتی ہیں ناں لڑکیاں میری طرف کیسے اٹریکٹ ہوتی ہیں…..یہ معمولی سی لڑکی کس کھاتے میں آتی ہے آپ جو چاہتی ہیں ویسا ہی ہو گا……."وہ ہاتھوں کی دونوں انگلیوں کو آپس میں اُلجھاتا پر سوچ انداز میں مسکرایا تھا………..
"ڈیٹس گریٹ……."ستائش بیگم مسکرائی تھی….تبھی ملازمہ کافی لے کر آئی تھی……....غازیان نے مگ اُٹھا کر مسکراتی نظروں سے ستائش بیگم کو دیکھا تھا….جو گہری سوچ میں غرق تھیں………..
………..¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤¤…………
"زارا تم کیا کر رہی ہو یار صبح سے دیکھ رہی ہوں تم کاموں میں اُلجھی ہوئی ہو….."حرا نے ڈانٹتے ہوئے کہا تھا…..جو ڈوپٹے سے ماتھے پر پٹی باندھے زورو شور سےکمرے کی صفائی میں جتی ہوئی تھی…..
"حرا خود کو مصروف کرنا چاہتی ہوں…..بس کسی بھی طرح وہ شخص یاد نہ آئے……"شیلف پر کتابیں جھاڑتی بولی تھی…..پھر ایک دم تھمی تھی…..سر تھاما تھا…..اور بیڈ کے کونے پر بیٹھی تھی……
"کیا ہوا تم ٹھیک ہو؟……."حرا پریشان ہو کر اُس کے پاس آئی تھی…..
زارا کو ایک دم سے ابکائی تھی وہ منہ پر ہاتھ رکھتی واش روم کی طرف بھاگی تھی……...وہ سنک پر جھکی اُلٹی کر رہی تھی…..اُس نے ٹیپ کھول کر منہ پر پانی کے چھینٹے مارے تھے…..
"زارو یار تو ٹھیک ہے….."اُس نے اندر آ کر حتمی انداز میں ٹیپ بند کیا تھا….اور اُسے بازو پکڑ باہر لائی تھی…….
"کیا ہوا ہے؟ تمہیں…..صبح سے لگی ہوئی ہو طبعیت تو خراب ہو گی ناں…..چلو اب ریسٹ کرو…..اور اب میں تمہیں کوئی کام نہ کرتے دیکھوں….اور یہ ماتھے سے پٹی کھولو….."اُس نے ڈوپٹہ اُس کے ماتھے سے کھینچا تھا……..
"حرا پلیز مجھے مر جانے دو یار…..اچھی بات ہے ناں طبعیت خراب ہو جائے اور میں مر جاؤں….وہ میرا انتظار کرتا ہے….."وہ نڈھال سی بیڈ پر بیٹھی تھی……
"لیٹ جاؤ…..اور آنکھیں بند کر کے سو جاؤ…..مجھے پتہ ہے رات ساری سوتی نہیں ہو بس روتی رہتی ہو……زارا تم نے اگر خود کو نہ سنبھالا تو پاگل ہو جاؤ گی اور میں سچ کہہ رہی ہوں اتنے ڈپریشن میں دماغ پر اثر ہوتا ہے……بہن معاف کرو ہمیں اور ترس کھاؤ خود پر…….ایک ہی شخص دنیا میں نہیں تھا اور بھی لوگ ہیں جو تمھاری فکر کرتے ہیں پروا کرتے ہیں…..ہوش کرو……."
زارا ناراض نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی…..
"تم جانتی ہو میری دنیا بس ایک شخص ہی تھا……….تم میری فکر نہ کرو یار لیکن ایسا بھی نہ کہو….."وہ سر جھکا کر اُداسی سے بولی تھی…….
"زارا تم……."ابھی وہ کھچھ کہہ رہی تھی……جب وہ اُٹھی تھی اور واش روم بھاگی تھی……
"یا اللہ زارا…..کیا ہوا ہے تمہیں؟….میں وجی سے کہتی ہوں وہ ساتھ والے کلینک سے ڈاکٹر رضیہ کو لے کر آئے…….."وہ فکر مندی سے باہر بڑھ گئ تھی……….
………
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر اُسے چیک کر رہی تھی…..اُس نے مسکرا کر زارا کو دیکھا تھا جو لیٹی اُلجھن بھری نظروں سے ڈاکٹر صاحبہ کو دیکھ رہی تھی…..
"مبارک ہو یہ ماں بننے والی ہیں….."اُس نے حرا کو کہا تھا…..زارا نے نفی میں سر ہلایا تھا اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا تھا……اُس نے لب کچلے تھے….آنکھوں میں ڈھیر سارا پانی جمع ہو گیا تھا……حرا نے مسکرا کر زارا کو دیکھا تھا…….
"میں میڈیسن لکھ رہی ہوں……اِنھوں نے ریگولرلی یوز کرنی ہیں…..اور بہت احتیاط کی ضرورت ہے کسی قسم کی کوئی ٹینشن ' ڈیپریشن ماں اور بچے کےلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے……."
"جی ڈاکٹر صاحبہ…..تھینک یو سو مچ…..ہم ہر چیز کا خیال رکھیں گے……."وہ مسکرا کر بولی تھی…..
"اچھا چلیں میں چلتی ہوں…..مجھے اجازت دیجیے……خدا حافظ………..…"وہ اپنی چیزیں سمٹتی مسکراتی باہر کی جانب بڑھ گئ تھیں……..
زارا غصے سے اُٹھ بیٹھی تھی…..اور سر تھاما تھا…..
"حرا مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے………"
"اچھا……"وہ ریلیکس انداز میں مسکراتے ہوئے بولی تھی…..
"تم نے شاید سنا نہیں میں کہہ رہی ہوں مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے….."وہ اپنی بات پر زور دے کر بولی تھی…..
"ٹھیک ہے یار تمہیں نہیں چاہیے تو مجھے دے دینا آفٹر آل خالہ ہوں میں….."
"حرا میں مذاق نہیں کر رہی میں سیریس ہوں میں ابارشن کروانا چاہتی ہوں……"
"یعنی تم قتل کرنا چاہتی ہو….ایک معصوم بچے کا…."وہ طنز سے بولی تھی…..
"ہاں یہی سمجھو….."وہ سر جھکا کر بولی تھی……..……
شاباش بہن مجھے لگا تمھارے پاگل ہونے میں ابھی کھچھ وقت باقی ہے…..لیکن تمھارا اوپر والا پورشن بلکل خالی ہو چکا ہے ماشاللہ سے تم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہو……وجہ جان سکتی ہوں…."
"حرا یہ بچہ ایک زمہ داری ہے….اور اگر یہ اِس دنیا میں آگیا تو پاؤں میں بیڑیاں آ جائیں گی ' جینا میری مجبوری بن جائے گا لیکن مجھے مرنا ہے…………"وہ ضدی لہجے میں بولی تھی……
"زارا…..میری جان یہ بچہ شاہ ویز بھائی کا وارث ہے…..سمجھو میری بات کو….اگر خدانخواستہ کل کو تمہیں کھچھ ہو بھی جاتا ہے تو یہ سنبھالے گا ہر چیز کو……اِس طرح تو پہلے ہی لوگ شاہ ویز بھائی کی جائیداد کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں…..وہ ہر چیز تمہیں سونپ گیا ہے اِس کی کوئی نہ کوئی تو وجہ ہو گی…..تم اگر اِس بچے کو اِس دنیا میں آنے سے پہلے ختم کر دیتی ہو تو میرے خیال میں تم سے بڑا بیوقوف کوئی نہیں ہے…….اور تمہیں کیا لگتا ہے شاہ ویز بھائی کو خوشی ہو گی وہ تم سے یقیناً ناراض ہو جائے گا……چندہ وہ تمہیں بہت بہادر سمجھتا تھا…..بہت مان تھا اُسے تم پر…….اگر تم شاہ ویز بھائی کا مان اور بھروسہ توڑنا چاہتی ہو تو شوق سے توڑو….میں تمہیں منع نہیں کروں گی………..
"حرا تم کیسے کہہ سکتی ہو بیٹا ہو گا…..بیٹی بھی تو ہو سکتی ہے ناں……."
"پہلی بات تو شکر ہے سائکولوجی پوائنٹ آف ویو سے لڑکی پوری پاگل نہیں ہوئی ہے…..مطلب ابھی بھی تھوڑا بہت دماغ چل رہا ہے…..اور دوسری بات محترمہ بیٹا ہو یا بیٹی کیا فرق پڑتا ہے نام تو خالہ نے رکھنا ہے…."وہ شرارتی لہجے میں بولی تھی تو زارا کھلکھلا کر ہنسی تھی……
"پاگل…….رکھنے ہی نہ دوں تمہیں…."
"اچھا وہ تو وقت آنے پر دیکھا جائے…..میں تو یہ سوچ رہی ہوں جب تمھاری ساس کو پتہ چلے گا قسم سے اُن کی شکل دیکھنے والی ہو گی….."
"ہاں پتہ نہیں…..حرا شاید اُنھیں اچھا لگے….شاہ ویز سوتیلا سہی تھا تو انکا بیٹا…..یاد تو آتا ہو گا اُن کو….اب مجھے لگتا ہے وہ خوش ہوں گی یہ خبر سُن کر….."وہ پھیکا سا مسکرائی تھی…..
"اللہ کرے ایسا ہی ہو……"حرا نے منہ بنا کر کہا تھا…..
"اچھا بتاؤ کیا کھاؤ گی؟….."
"کھچھ نہیں….."
"کھچھ نہیں کی بچی میڈیسن کھانی ہے….کھچھ بنا کر لاتی ہوں…..تم ریسٹ کرو……"
"حرا…….تھینک یو یار…."وہ شرمندہ ہو کر بولی تھی……
"سنبھال کر رکھو اپنے پاس….."وہ ناک سے مکھی اُڑاتی مسکراتے ہوئے باہر بڑھ گئ تھی……زارا گہرا سانس لے کر تھکاوٹ سے مسکرائی تھی……

What's Your Reaction?

like

dislike

love

funny

angry

sad

wow